گلگت بلتستان اور چین کا ابھار
سب سے پہلے میں اس سیمینار کا انتظام کرنےپر بیرونس ایما نکلسن اور ان کے سٹاف کا شکر گزار ہوں جنھوں نے مخلص اور فعال طور پر جموں کشمیر کے لوگوں کے مسائل کو اجاگرکرنے کے لئے کام کیااس کے علاوہ میں اپنے ساتھیوں عباس بٹ ، محمد عاصم ، محمد شعیب اور امتیازالمقصود کا بھی مشکور ہوں ہے جو اس وفد کا حصہ تھے جس نے گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا . یہ سفر بہت دشوار گزار اور خطرناک تھا
میڈم چیئر
مسئلہ کشمیر کے فریقین اور چین
سابق ریاست جموں کشمیر کی خطے میں بہت اہمیت ہے ، لیکن اگر گلگت بلتستان کے علاقوں پرایک اور ملک کا قبضہ ہوگیا تو اس کی اہمیت کافی حد تک کم ہو جائے گی ۔کچھ لوگ ذاتی مفادات کی وجہ سے تنازعہ کشمیر کو مذہبی تنازعہ کے حوالے سے فروغ دیتے ہیں، اور دعوی کرتے ہیں کہ صرف بھارتی زیر انتظام کشمیر ہی متنازعہ ہے. ہماری رائے یہ ہے کہ ایسا حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے ،تنازعہ کشمیر کی نوعیت سیاسی ہے اور جموں کشمیر کی مکمل ریاست جس میں جموں ، وادی ، لداخ ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان شامل ہیں متنازعہ ہے.
اب تک وہاں تنازعہ کشمیر کے صرف تین فریق ، جموں کشمیر کے عوام ، پاکستان اور بھارت کے نام سے موجود تھے. ماضی قریب میں کچھ حلقوں کی کوشش رہی ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کو اس مسئلے کا فریق بنایا جائے. میرے نزدیک یہ خاص طور پر گلگت بلتستان کے علاقوں اور پاکستان کے شمالی حصے کے لئے
انتہائی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے،یہ ایک بہت ہی خطرناک چال ہے جس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی.
اس کے علاوہ ، مسئلہ کشمیر کے دیگر فریقوں میں جنوبی ایشیا کے ممالک بھی شامل ہیں. چین جنوبی ایشیا میں نہیں ہے ، لیکن گوادر بندرگاہ کے ساحل سےآگے تک کے خطے میں اس کے بڑے اقتصادی ، سیاسی اور اسٹریٹجک مفادات ہیں.
وہ لوگ جو چین کےتنازعہ کشمیر پر فعال کردار کو کاٹنا چاہتے ہیں انھیں سمجھنا چاہیے کہ چین ایک بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت ہے ، اور وہ اپنے مفادات کی ہرحالت میں حفاظت اور نگہداشت کرے گا ، اور یہ کہ ہو سکتا ہے یہ ان لوگوںکی خواہشات اور مفادات کے منافی بھی ہو جو اس علاقے میں ایک چینی کردار کو فروغ دینے کے لئے کوشاں ہیں.
چین کا کردار
کچھ تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین پہلے ہی تنازعہ کشمیرکا ایک کردار ہے ، جیسا کہ اس نے مختلف پلیٹ فارموں پر کشمیریوں کے حقوق کی حمایت کی ہے. اس لحاظ سے بہت سے دیگر ممالک بھی مسئلہ کشمیر میں کردارکے حامل ہیں ، جیسا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں اور دیگر اقدامات کی حمایت کی جس سے قضیے کے پرامن حل میں مدد مل سکے۔
کشمیر میں جاری صورت حال کے تناظر میں اس طرح کی حمایت دوسرے ممالک کی تشویش میں اضافے کا باعث بنی ہے جس سے اس خطے میں عدم استحکام میں اضافہ ہوسکتا ہے تاہم اس طرح کی حمایت کرنا انھیں تنازعہ کشمیر کا ایک فریق نہیں بناتا ، جس طرح بھارت اور پاکستان ہیں. ہم دوسرے ممالک کی طرف سے تنازعہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی خواہشات کا احترام کرتے ہیں مگر ہمیں ہرحال میں دوسروں کو اس تنازعے کا فریق بنانے سے پرہیز کر نا چاہیے اس سے کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا
مسئلہ کشمیر پر چین کا کردار تضادات بھرا رہا ہے، کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا کردار غیر جانبدار پھر کشمیر کا حمایتی، پاکستان نوازاورپھر دوبارہ غیر جانبداری کی طرف جیسا رہا ہے ، کارگل بحران کے دوران چین غیر جانبدار رہا ہے. لیکن 2008 کے بعد سے جموں کشمیر اور بھارت کی سرحدی معاملات سے متعلق کھل کرفعال ہوگیا ہے.
1962 کی چین بھارت جنگ اکسائے چین کے کشمیری علاقے پر چینی قبضے کا نتیجےبنی. یہ جنگ پاکستان اور چین کو ایک دوسرے کے قریب لائی اور اس دوستی کو مضبوط بنانے کے لئے پاکستان نے 2200 مربع میل پر مشتمل گلگت بلتستان کا علاقہ چین کو دے دیا مگر اس کے باوجود چین نے اس دور میں کوئی فعال کردار نہیں ادا کیا اور نہ ہی اس کا ایسا کوئی منصوبہ تھا جیسا کہ دونوں ممالک کے درمیان معائدے سے ظاہر ہوتا ہے
اس معاہدے کے آرٹیکل 6 میں چین کا اعتراف ہے کہ گلگت بلتستان کی خود مختاری کو پاکستان کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا . اس معاہدے کےاقتباس میں
'دونوں فریق اس امر پر اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعہ کشمیر کے حل کے بعد عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوں گے جیسا کے موجودہ معاہدے کے آرٹیکل دو مضمون میں بیان کیا گیا ہے متعلقہ اتھارٹی کے درمیان تنازعہ کشمیر کے حل ، تاکہ بعد میں رسمی طور پر حد معاہدہ جو کہ موجودہ معاہدہ ہے ، بشرطیکہ کہ پاکستان خودمختار رہے ، اتھارٹی کے موجودہ معاہدے کی رو اور مندرجہ بالا پروٹوکول کی شقوں کو رسمی طور پر حد معاہدہ میں رکھا جائے گا ایسی صورت میں عوامی جمہوریہ چین اور متعلقہ پاکستانی اتھارٹی کے درمیان پر دستخط کئے جائیں گے. '
گلگت بلتستان میں مفادات کی دوڑ
چین نے اپنی پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے، کیونکہ چین خطے میں ایک مضبوط اقتصادی اور فوجی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنےآرہا ہے ، اور اسے نئی منڈیوں ، توانائی کے نئے وسا ئل و ذرائع تلاش کرنے کے لئے فعال کردار کی ضرورت ہے اس سلسلے کو یقینی بنانے کے لئے کہ اُسے گلگت بلتستان کے معاملات یا پھر پاکستان کے معاملات میں اپنی بات زور دار طریقے سے کرنے کے لئے ہر اس جگہ نہ صرف رسائی ملے بلکہ کنٹرول بھی جیسا کہ انھوں نے گوادر کی بندرگاہ کو بنانے کے لئے کروڑوں کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے
گلگت بلتستان میں چین کی بہت بڑی موجودگی ہے. بظاہر یہ بڑے منصوبوں کی تعمیر میں ملوث ہیں ، لیکن چینی فوج اور اسکے ڈیزائن سے اس علاقے کے کنٹرول کرنے سے بہت سے لوگوں کو پریشان کردیا ہے.نہ صرف وہاں پر چینی بنک کھل رہے ہیں بلکہ وہ چوری چھپے مگر بھرپور انداز میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے ذریعے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرکے اس خطے کا کنٹرول ہتھیانا چاہ رہے ہیں
جب ہم نے گزشتہ سال اکتوبر میں اس علاقے کا دورہ کیا تو ہم نے بہت سے چینی لوگ وہاں پر دیکھے جس میں فوج کے لوگ بھی شامل تھے. ماضی میں یہ لوگ صرف ترقیاتی کاموں کے لئے آیا کرتے تھے ، اورکاموں کو مکمل کرنے کے بعد واپس چلے جاتے تھے ، مگر اب وہ یہاں پر ہی مستقل رہتے ہیں رہائش کے لئے پختہ مکانات تعمیر کر لئے ہیں ہمارے دورے کے دوران ہم نے کچھ چینی لوگوں کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں ، اور جس چیز نے ہمیں سب زیادہ حیران کیا وہ چینی زبان میں لکھے سائن بورڈز تھے.
یہ سب کچھ نہ صرف گلگت بلتستان کے لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث ہےبلکہ بھارت اور امریکہ کے لئے بھی پریشانی کا سبب بن رہا ہے ، جیسا کہ یہ ممالک اس علاقے میں چین کے اثر و رسوخ اور کنٹرول کو پسند نہیں کریں گے ، خاص طور پر چین کے گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کی خواہش اور کنٹرول کو. اس بات کا امکان نہیں ہے کہ بھارت اور امریکہ خاموش تماشائی بنے رہیں گے اور چین کو ایسا کرنے کاموقع دیں گے جیسا کہ ظاہر ہے ان کی بھی اس علاقے میں گہری دلچسپی ہے.
ایک بھارتی دفاعی تجزیہ نگار بھارت ورما نے حال ہی میں لکھا ہے' اپنی تباہی کا جو راستہ اسلام آباد نے منتخب کیا ہے اس کا منطقی نتیجہ اس ریاست کو کئی مزید حصوں میں تقسیم کرے گا یا پھر یہ خود مرجھا جائے گی اور یہ قدرت کا عمل ہے جس کا منطقی انجام بہر صورت ہوکر رہے گا دونوں صورتوں میں بلوچستان آزادی حاصل کرلے گا. نئی دہلی کے لئے یہ موقع ایک نئی کھڑکی کھلنے کے مترادف ہے اور ہمیں اس بات کو یقینی بنا نا ہوگا کہ گوادر کی بندرگاہ کو چین کے ہاتھ میں نہ گرائیں اس بات میں امر یکااور بھارت کے سیاسی مقاصد کے درمیان مطابقت ہے. ہماری بلوچستان میں موجودہ ساکھ کو انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے '
میں اوپر دئے گئے خیالات سے اتفاق نہیں کرتا تاہم میری تشویش یہ ہے ہمارا خطہ مفادات کی اس لڑائی میں میدان جنگ بن جائے گا جو کہ اس علاقے کے لئے تباہ کن ہوسکتا ہے
تاہم کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے ، پاکستان چونکہ ایک لا حکومتی ریاست بنتا جارہاہے اور تیزی سے بعض علاقوں پر اپنی عمل داری کھورہا ہے، اس لئےپاکستان نےایک سنگین خانہ جنگی یا پھر بھارت یا کسی دوسری طاقت کے ساتھ جنگ کی صورت میں اس خلا کو پر کرنے کے لئے چین کو اجازت دے دی ہے۔کچھ تجزیہ نگاروں کو یہ حیرت ہے کہ ایک طرف تو چین بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارتی تعلقات بڑھا رہا ہے ، تودوسری طرف وہ جموں کشمیر اور دیگر سرحدی اور پانی کے تنازعات پر کشیدگی اور دشمنی میں اضافہ بھی کررہا ہے کچھ تحجب نہیں کہ بڑھتی کشیدگی ، دعوی اور جواب دعوی دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی شراکت کو خطرے میں ڈال دےگی.
ایک طرف بھارت اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک شراکت داری ہے ، اور دوسری طرف ایک سٹریٹجک شراکت داری کی بنیاد پرچین اور پاکستان کے درمیان ایک مشترکہ ایجنڈا ہے. تاہم ، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اہم اتعادی ہے.
مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ طاقتیں جو جہاد کو فروغ دے رہی ہیں اور اسے برآمد کررہی ہیں ایک طرف تو امریکہ کی مدد لے رہی ہیں اور کشمیر میں حملے بھی کررہی ہیں جب کہ دوسری طرف وہی طاقتیں ان گروپوں کو تربیت،اسلحہ، اور مدد بھی فراہم کررہی ہیں جو امریکی اہداف پر حملے کررہے ہیں۔اسی طرح ان میں واضح اختلاف ہے چین کے حوالے سے جو سدابہار دوست پرموٹ کررہے ہیں جیسا کہ چین میں مسلح مسلم باغیوں کے حوالے سے
سروے
حال ہی میں ایک اہم سروے کیا گیا ہے جس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں . تمام سروے میں ایک بات واضع ہے کہ لائن آف کنٹرول کے اس پار بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے لوگ پاکستان کے ساتھ نہیں ملنا چاہتے. ہم نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کے خیالات معلوم کرنے کے لئے بھی سروے کیا اور یہ 150 افرادپرمشتمل دونوں خطوں سے نمونے کا سروے تھا
آپ اس سروے سے اس علاقے کی صورت حال سے آگاہی حاصل کرسکتے ہیں ہم مقامی لوگوں کے ساتھ ایک ہوٹل میں بیٹھے مختلف معاملات پر بات چیت کررہے تھے ہمارے ایک سوال پر ایک شخص نے پاکستانی حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نواز ناجی صاحب کی طرح اس کا پہلا انتخاب ایک آزاد گلگت بلتستان ہوگا۔دوسرا متحدہ جموں کشمیر لیکن اگرصرف دو ہی آپشن بھارت یا پاکستان دئے گئے تو میرا ووٹ بھارت کے لئے ہو گا چونکہ ہم نے گزشتہ تریسٹھ سالوں میں پاکستان کا حقیقی چہرہ دیکھ لیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ رہنا کیسا ہے تو اب ہم یہ بھی دیکھ لیں گے کہ بھارت کے ساتھ رہنا کیسا رہے گایہ ایک دلچسپ اور دلیرانہ بیان تھامیں نے پوچھا کیا تمھیں یقین ہے کہ تم بھارت کے لئے ووٹ دو گے ؟ اگر تمھارے لئے دو انتخاب رکھے گے تو؟ اس کا جواب تھا جی ہاں مگر اس کے فوری بعد اس نے اپنا بیان بدل دیا اور اس نے کہا بھارت ایک ہندو ملک ہے اور پاکستان ایک مسلم ملک اگر ہمیں دو راستے دئے گے تو ہم پاکستان کا انتخاب کریں گے وہ ہمارے بھائی ہیں لیکن ہمارا پہلا انتخاب ایک آزاد گلگت بلتستان ہی ہوگا۔
اس ملاقات کے بعد جب ہم اپنے کمرے کی طرف جا رہے تھے کہ اس آدمی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگے : 'چوہدری صاحب بیان کی تبدیلی پر میں معذرت خواہ ہوںآپ نے شاید نہیں دیکھامگر میں نے دیکھ لیا تھاکہ آئی ایس آئی کا ایک اہلکار ہوٹل میں آرہا تھا اس لئے مجھے اپنا بیان تبدیل کرنا پڑا. ورنہ میں مصیبت میں پڑ سکتاتھا..ان لوگوں کو مفت میں غصہ دلانے کی کیا ضرورت ہے جس سے میں اور میرا خاندان زیر عتاب آئیں ہمیں پتہ ہے کیا کرنا ہے جب ووٹنگ کا وقت آئے گا' یہ بیان موجودہ صورت حال ۔ڈر ظلم و ستم کی کھلی داستان بیان کرتا ہے اس شخص کے بیان میں تبدیلی اور آئی ایس آئی کے اہلکار کی موجودگی کے باوجود جس کا مجھے علم نہیں تھا کم از کم تین طلبہ نے مجھے بتایا کہ اگر بھارت یا پاکستان کے انتخاب کے معاملے پر ووٹ ہوئے تو ان کا ووٹ بھارت کے لئے ہو گا۔
Q8:کیا آپ اس انتخاب میں حصہ لیں گے جس کا عالمی سطع سے اہتمام کیا گیا ہو اورجس میں آپ بغیر کسی دبائو یا جبرکے بھارت یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے لئے ووٹ ڈال سکیں ؟
45% نےکہا ہے کہ وہ پاکستان کے لئے ووٹ دیں گے
30% نے کہا کہ وہ بائیکاٹ کریں گے
15% فی صد نے کہا کہ وہ اسی دن فیصلہ کریں گے۔
10% کہا کہ وہ بھارت کے حق میں ووٹ ڈالیں گے انھوں نے دیکھ لیا ہے کہ پاکستان میں کیا ہوتا ہے۔
Q9.اور اگر تیسرے آپشن کے طور پر ایک متحدہ جموں کشمیر کو شامل کیا جائے تو آپ کس کو ووٹ ڈالیں گے ؟
60% نےکہا کہ وہ آزادی کے تیسراےآپشن کے لئے ووٹ دیں گے
30% نےکہا کہ وہ پاکستان کے لئے ووٹ دیں گے
10% نےکہا کہ وہ بھارت کے لئے ووٹ دیں گے
خلاصہ
میں یہ ہرگز دعوی نہیں کرتا کہ یہ سروے ان دونوں علاقوں کے عوام کے حقیقی جذبات کی عکاسی کرتا ہے ، آپ اس کے نتائج کے ساتھ اختلاف کر سکتے ہیں کچھ پاکستانی اور آزاد کشمیر کے حکام نے نجی طور پر اعتراف کیا ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کی اکثریت مکمل طور پر غیر جانبدارانہ رائے شماری کی صورت میں ان کے حق میں ووٹ نہیں ڈالے گی خصوصی طور پر اگر اسے کسی بین الاقوامی نگرانی میں منعقد کیا جائے ۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کے خیالات جاننے کے لئے سب سے بہترین طریقہ اقوام متحدہ کی طرح قابل بھروسہ بین الاقوامی تنظیم کے تحت ایک غیر جانبدارانہ رائے شماری کا انتظام ہے. اس رائے شماری کے نتائج نہ صرف ان علاقوں کے لوگوں کی خواہشات کا پتہ دیں گے بلکہ ظاہر ہے اس سےپاکستان کی پوزیشن بھی مضبوط ہوگی لیکن کیا وہ اس چیلنج کےلیے تیار ہے؟
جیسا کہ آج 11 فروری ، ایک ایسا دن ہے جب کشمیری عوام اپنے عظیم رہنما مقبول بٹ کی شہادت پر انھیں خراج عقیدت پیش کرتی ہے ،مناسب ہو گا کہ مقبول بٹ کے ایک قول کے ساتھ میں ختم کروں. پاکستان کی ایک خصوصی عدالت میں مقبول بٹ شہید نے اپنے بیانمیں کہا تھا۔
'کوئی بھی شخص مجھےیہ دعوی کرنے سے نہیں روک سکتا کہ پاکستان میں ہر حکمران نےطاقت اقتدار اور نفسانی خواہش کے لئے 25 سال سے مسئلہ کشمیر کا استحصال کیا ہے اور پاکستان کے عوام کو گمراہ کیا ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں جب اقتدار فوجی آمریت کے ہاتھوں میں آ جاتا ہے تو یہ سازش مزید گہری ہوجاتی ہے خود پاکستان کی تقسیم بھی اس زمرے میں ایک سازش کا منطقی نتیجہ ہے۔
میڈم چیئر ، آپ کے تعاون کا شکریہ.
11 فروری2011 کو برطانوی دارالحمرا میں ڈاکٹر شبیر چوہدری کا مقالا
انگریزی سے ترجمہ ۔واحد کاشر
Monday, 14 February 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment