Sunday, 23 January 2011

بی جے پی کی جے ہو

بی جے پی کی جے ہو
اصناف: آس پاس, بحث, سیاست, پردیسی
نعیمہ احمد مہجور | 2011-01-23 ،16:33
جس چھبیس جنوری کو بھارتی شہریوں کو جان کی امان حاصل ہوئی تھی وہی دن کشمیری عوام کے لیے ہر سال عذابِ جان بن جاتا ہے۔
چھبیس جنوری سے پہلے اور اُس دن کا منظر کشمیر میں اپنی نوعیت کا انھوکھا منظر ہوتا ہے جب پوری وادی پر سکیورٹی کا مزید پہرہ بٹھایاجاتا ہے۔ راہ گیروں کی تلاشی لی جاتی ہے، حساس کہلانے والے علاقوں میں ٹریفک معطل کی جاتی ہے اور پھر یومِ جمہوریہ پر وادی مکمل طور پر محصور ہو جاتی ہے۔
نوے کے اوائل میں محصور وادی کے چند چھتوں کے اُوپر سے بندوق بردار اِکا دکُا میزائل بھی داغا کرتے تھے مگر اب کچھ عرصے سے لوگ اپنے گھروں کے اندر رہ کر پرُ امن احتجاج کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرینگر کے لال چوک میں ترنگا لہرانے کے نئے ایڈوینچر نے کشمیر کی تحریک آزادی میں لگتا ہے اب نئی روح پھونک دی ہے حالانکہ وہ بار بار اُبھرنے کے باوجود ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔
گوکہ اقتدارمیں واپس آنے کے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مواقع اس وقت محدود نظر آرہے ہیں حالانکہ بھارتی معاشرے کی سوچ پر اس کا گہرا اثر مرتب ہواہے مگر کشمیر پر توجہ مرکوز کرکے وہ اپنی ساکھ کو بچانے میں شاید کامیاب ہوسکے کیونکہ کشمیر بھارت کی بیشتر آبادی کے لیے جذباتی معاملہ بن گیا ہے۔
بھارتی عوام کاش بھارتیہ جنتا پارٹی سے پوچھ لیتے کہ 'اٹوٹ انگ' کہلانے والےعلاقے پر ترنگا لہرانے کی ضرورت پیش کیوں آئی یا پھر اُس کواپنے کہنے پر وِشواس نہیں یا دل میں کوئی بات ہے جو بار بار کھٹکتی ہے۔
وادی کی آزادی نواز آبادی تِرنگا لہرانے سے پریشان نظر نہیں آتی بلکہ وہ سنگ بازوں سے بھی باز رہنے کی تلقین کررہی ہے کیونکہ ان کی آزادی کی تحریک کو بی جے پی نہ صرف اپنی جنونی پالیسی سے عروج پر پہنچا رہی ہے بلکہ خود بھارت نواز کشمیری سیاست دان اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ 'اٹوٹ انگ' کا راگ کچھ کچھ پھیکا لگ رہا ہے جس پر پردہ ڈالنے کے لیے سیاست دان اب ترنگا لہرانے لگے ہیں۔
کشمیر کے اطراف میں ترنگا لہرانے کے ردعمل میں شورش کی ایک اور لہر اٹھنے کا امکان موجود ہے کہ جس سے بر صغیر کےغریب عوام متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
کشمیری قوم کو متحد کرنے کا مشکل ترین کام مسلح تحریک یا ہزاروں احتجاجی مظاہرے ابھی تک نہیں کر پائے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی جے ہو کہ جس نے اِس قوم کو جھنجھوڑ کر آزادی کے جذبے کو پھر جلاّ بخشی۔

No comments: