مجھے بات نہیں کرنی!
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
مجھے آج ایسے ممالک اور معاشروں کی بات ہی نہیں کرنی جو دو ہزار گیارہ کی دنیا میں بھی دائرے میں چلتے رہنے کو سفر جانتے ہیں، کنوئیں میں پڑے کتے پر کپڑا ڈال کے سمجھتے ہیں کہ پانی پاک ہوگیا، گندگی کے ڈھیر کو پہاڑی کی شکل دے کر اسے خوشبودار مٹی سے لیپ دیتے ہیں۔
جو دل سے قائل ہیں کہ ان کی ننانوے فیصد غلطیوں اور غفلتوں کے ذمہ دار دوسرے ہیں۔ اگر وہ یہ یہ یہ یہ نہ کرتے تو ہم بھی وہ وہ وہ نہ کرتے۔ جنہوں نے دماغ کو تاریک قید خانے میں ڈال کر دل کو اس کا دربان مقرر کردیا ہے۔ جو شک کے پانی کو آبِ حیات سمجھتے ہیں۔
جو اپنے کرتوتوں کو خدا کے سر منڈھ کر عذابِ الہی کا نوحہ پڑھتے ہیں اور اگلے ہی لمحے پھر سے پھنے خان بن کر فرضی و اصلی دشمنوں کو خلط ملط کرکے ہوا میں تلوار بازی شروع کردیتے ہیں اور اپنے ہی ’دادیوں‘ سے واہ واہ سن کر سمجھتے ہیں کہ پالا مار لیا بھئی!
مجھے صرف ان ممالک کی بات کرنی ہے جہاں غلطی کو غلطی ، غفلت کو غفلت اور جرم کو جرم تسلیم کرکے خود احتسابی کے نشتر سے پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے تاکہ سارا کھاتہ صاف کرکے نئے ارادے اور عزم کے ساتھ آگے بڑھا جا سکے۔
جیسے ترک، جنہوں نے اکیانوے برس پہلے طے کرلیا کہ ہوسِ ملک گیری ایسا اژدھا ہے جو آخر میں خود ہی کو نگل جاتا ہے۔غلام بنانے والا بالاخر خود بھی غلامی کی دھلیز پر پہنچ جاتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ بکھرنے سے پہلے خود کو سمیٹ کر جدید نظامِ زندگی کے منفی پہلوؤں سے بچتے ہوئے مثبت مثالوں سے استفادہ کیا جائے اور دوسروں کو خود داری کا درس دینے سے پہلے یہ سبق خود پر نافذ کیا جائے۔اس کے بعد ترکی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
آج مجھے نہ تو سن پینسٹھ کی پاکستان انڈیا جنگ، سن اکہتر کی جنگِ بنگلہ دیش، سن نواسی کے تباہ کن جلال آباد حملے، سن ننانوے کی کرگل لڑائی اور دو ہزار پانچ کے عبدالقدیر خان نیٹ ورک سکینڈل کے ذمہ داروں پر کوئی بات کرنی ہے اور نہ ہی اسامہ کے ڈرامہ پر کچھ کہنا ہے۔
جیسے جرمن ، جو سن پینتالیس کے بعد اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اب باہر والوں سے نہیں لڑنا۔اپنے آپ سے لڑنا ہے اور ایسا سماج تشکیل دینا ہے جہاں دوبارہ کوئی قیصر، کوئی ہٹلر اور کوئی گوئبلز جنم نہ لے سکے۔جہاں صرف تعلیمی سمر کیمپ اور کھلاڑیوں کے کیمپ بنیں کوئی کنسنٹریشن کیمپ نہ بن سکے۔
جیسے جاپانی، جنہوں نے چھپن برس پہلے خود پر ایٹم بم گرنے کے بعد پوری دنیا کو اپنی چراگاہ سمجھنے کی ذہنیت ترک کرکے آئین سے جارحیت کا لفظ ہی کھرچ ڈالا اور خود سے مباحثہ کرکے اس نتیجے پر پہنچے کہ جنگ اب ہتھیار سے نہیں صنعت ، ایجاد اور جدیدیت کے ذریعے لڑنی ہے۔
جیسے کیوبن ، جنہوں نے باون برس پہلے قسم کھائی کہ اب امریکہ سے نہ کچھ لینا ہے نہ دینا ہے۔ اپنی محنت پر تکیہ کرنا ہے۔ معیارِ زندگی بڑھے گا تو ایک ایک شہری کا بڑھے گا۔ نہیں بڑھے گا تو کسی کا نہیں بڑھے گا۔ دوست صرف اسے بنانا ہے جو دوستی کے پردے میں قومی معیشت و خود داری کو ریپ نہ کرے ۔کسی بھی دوستی کو بیساکھی نہیں بننے دینا ہے۔
اس وقت مجھے کچھ افراد بھی یاد آرہے ہیں جنہوں نے اپنی ناکامیوں کو کامیابی کی چادر میں نہیں لپیٹا اور خود کو جزا و سزا کے عمل کے حوالے کردیا۔
جیسے سن چھپن کی جنگِ سویز میں برطانیہ کو جھونکنے والے وزیرِ اغطم انتھونی ایڈن نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پانچ برس کی مدت پوری کرنے کی ضد نہیں کی اور استعفیٰ دے دیا۔
مجھے صرف ان ممالک کی بات کرنی ہے جہاں غلطی کو غلطی ، غفلت کو غفلت اور جرم کو جرم تسلیم کرکے خود احتسابی کے نشتر سے پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے تاکہ سارا کھاتہ صاف کرکے نئے ارادے اور عزم کے ساتھ آگے بڑھا جا سکے۔
جیسے سن باسٹھ میں چین سے لڑائی میں شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بھارتی وزیرِ دفاع کرشنا مینن نے استعفی دے دیا اور وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو نے پارلیمنٹ کے فلور پر اعتراف کیا کہ شکست کی وجہ یہ ہے کہ ہم سوئے ہوئے تھے اور اپنے ہی خوابوں کی دنیا میں تھے۔
جیسے سن سڑسٹھ کی جنگ میں اسرائیل سے شکستِ فاش کھانے والے مصری کمانڈر فیلڈ مارشل عبدالحکیم عامر نے مارے غیرت کے خودکشی کرلی۔ جمال عبدالناصر نے صدارت سے استعفی دے دیا۔ لاکھوں مصریوں نے انکے محل کا گھیراؤ کرکے استعفی واپس لینے پر مجبور تو کردیا لیکن ناصر اندر سے مرچکا تھا۔ڈیڑھ برس بعد اس کے دل نے بھی زندگی سے استعفیٰ دے دیا۔
جیسے سن چوہتر میں رچرڈ نکسن نے واٹر گیٹ اسکینڈل کی ریکارڈنگز کو جعلی یا اپنی منتخب صدارت کے خلاف غیر ملکی سازش قرار دینے کی کوشش نہیں کی۔ اعتراف کیا کہ ہاں یہ سب کچھ ہوا ہے اور بحثیت صدر میں ذمہ دار ہوں اور نکسن نے کانگریس کےسامنے مواخذے سے پہلے ہی استعفی دے دیا۔
آج مجھے نہ تو سن پینسٹھ کی پاکستان انڈیا جنگ، سن اکہتر کی جنگِ بنگلہ دیش، سن نواسی کے تباہ کن جلال آباد حملے، سن ننانوے کی کرگل لڑائی اور دو ہزار پانچ کے عبدالقدیر خان نیٹ ورک سکینڈل کے ذمہ داروں پر کوئی بات کرنی ہے اور نہ ہی اسامہ کے ڈرامہ پر کچھ کہنا ہے۔
کچھ کہنے کا فائدہ ؟؟؟؟؟؟
Monday, 9 May 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment