گلگت بلتستان میں آنکھ کھولنے والی آمنہ انصاری کا وادی کشمیر جانے کا خواب انتالیس سال کی عمر میں
جاکر شرمندہ تعمبیر ہوا۔
آمنہ انصاری کے والد سنہ 1948 میں کارگل سے ہجرت کرکے گلگت بلتستان میں آباد ہوئے تھے۔
آمنہ انصاری نے، جو گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کی رکن ہیں، گزشتہ ماہ وادی کشمیر میں ہونے والی کشمیری خواتین کی دو روزہ کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔
سرینگر جانے والی آمنہ انصاری نے وادی کشمیر کے بارے میں صرف اپنے والد سے سن رکھا تھا یا جنت ارضی کے مناظر ٹیلی ویژن پر دیکھے تھے۔
لیکن ذرائع ابلاغ کے ذریعے انھوں نے حالات کی سنگینی کا جو نقشہ ذہین میں بھٹا رکھا تھا انہیں حقیقی صورتحال اس سے مختلف دکھائی دی۔ آمنہ نے کہا:’خوبصورتی کو دیکھیں، ترقی کو دیکھیں، تعلیم کو دیکھیں،‘
ستمبر کے آخر میں وادی کشمیر کے سیاحتی مقام گلمرگ میں دو غیر سرکاری تنظیموں کے زیر اہتمام ہونے والی اس دو روزہ کانفرنس میں گلگت بلتستان سمیت لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب سے پنتالیس خواتین شریک ہوئیں۔
سنہ انیس سو اٹھاسی میں وادی کشمیر میں مسلح تحریک کے آغاز کے بعد یہ اپنی نوعیت کی دوسری کانفرنس تھی۔اس سے پہلے سنہ 2007 میں بھی اسی طرح کی ایک کانفرنس ہوئی تھی۔
ستمبر میں ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی ایک طالبہ ضویا عباسی نے بھی شرکت کی۔
وہ کہتی ہیں :میری یہی سوچ تھی کہ وہ شورش زدہ علاقہ ہے، بھارتی فوجی لوگوں کو مار رہی ہے، وہاں کوئی زندگی نہیں ہوگی، کوئی رونق نہیں ہوگی، ترقی نہیں ہوگی، لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوں گے، وہاں بس تششدد ہوگا۔‘
سرینگر پہنچ کر ضویا نے جو کچھ دیکھا وہ ان کی سوچ کے بالکل برعکس تھا۔
’آج کل وہاں امن ہے، وہاں کے لوگ خوبصورت، پڑھے لکھے، جدید سوچ کے مالک اور باشعور ہیں۔ تعلیمی معیار بہت اچھا ہے، عورتین پڑھی لکھی اور متحرک ہیں، ہر بچہ سکول جاتا ہے، لڑکی سکول جاتی ہے، یہ ایک نسبتاً جدت پسند اور وقت کے ساتھ ساتھ چلنے والی سوسائٹی ہے۔‘
کشمیری طالبہ نے کہا‘ وہاں ترقی بھی ہے، اچھے ہوٹلز ہیں، لیکن سرینگر گنجان آباد ہے اور وہاں تھوڑی گندگی بھی ہے، انفراسٹرکچر بہت زیادہ ہے اور ہر جگہ سکول ہیں۔‘
لیکن لائن آف کنڑول کے اس جانب کی خواتین کا کہنا ہے کہ سرینگر کے لوگوں کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر یا گلگت بلتستان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی رہنے والی منقسم کشمیری خاندان کی ایک اور خاتون ڈاکٹر زاہدہ قاسم جنھوں نے گلمرگ میں ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کی اب سے چار سال پہلے وہاں ہونے والی اسی نوعیت کی پہلی کانفرنس میں بھی شریک تھیں۔
‘وہاں کے لوگوں کا خیال تھا کہ یہاں کی خواتین برقعے میں ہونگی، انھیں اٹھنا بھیٹنا آتا ہوگا نہ ہی بولنا۔‘
لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دیکھ کر انھیں یہ احساس ہوا کہ ہم بھی ان ہی کی طرح ہیں۔
گلگت بلتستان کی رکن اسمبلی آمنہ انصاری نے کہا کہ اس پار کے لوگوں کے ذہنوں میں گلگت بلتستان کے بارے میں یہ نقشہ ہے کہ یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے، وہاں ترقی نہیں ہے اور نہ ہی لوگوں کو خاص طور پر خواتین کو حقوق حاصل ہیں۔
آمنہ کہتی ہیں ان کے جانے سے یہ فائدہ ہوا کہ لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب کے لوگوں کو گلگت بلتستان کے بارے میں واقفیت ہوئی۔
ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے گلگت بلستان کے بارے میں وہاں کے لوگوں کی سوچ تبدیل کی۔
کشمیری خواتین معلومات کے فقدان کی بڑی وجہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنڑول کوگردانتی ہیں۔
ڈاکٹر زاہدہ کہتی ہیں’ہمارے درمیان جو لائن آف کنڑول بنائی گئی ہے میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک گھر کا بٹوارہ کیا گیا۔‘
پاکستان میں مقیم منقسم کشمیری خاندان کی ایک اور خاتون ڈاکٹر نسیمہ جوگیزئی نے کہا’ ہمیں ایک ہونا چاہیے اور ہمارے درمیان جو دیوار کھڑی کی گئی ہے اسے گرا دینا چاہیے اور ہمارے درمیان باہمی رابطے بڑھنے چاہیں’۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان پچیدہ تعلقات کے پیش نظر دونوں ملک کنٹرول لائن کے آر پار بسنے والے کشمیریوں کی صورت حال کو اپنے اپنے مخصوص زاوایے سے دیکھتے رہے ہیں اور دونوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ دوسری طرف کے حالات و واقعات کو منفی پرویپگنڈہ کا موضوع بنایا جائے۔
لیکن عوامی سطح پر مل بھیٹنے کے مواقع کی بدولت ایک دوسرے کے حالات کو پرکھنے کا جو موقع مل رہا ہے اس کی بنیاد پر افہام و تفہیم کے عمل کو ایک بامعنی جذبے کے ساتھ آگے بڑھایا جاسکتا ہے جو، عین ممکن ہے کہ عوام کے لیے مستقبل میں نیک فعال ثابت ہو۔
No comments:
Post a Comment